Welcome to depalpur.pk

تاریخ دیپال پور
دیپال پور
برصغیر کا  قدیم تاریخی شہر

دریائے بیاس اور ستلج کے درمیان واقع یہ شہر دیپال پور جو آج بھی زندگی کی دوڑ میں شامل زمانہ قبل از تاریخ بر صغیر پاک و ہند کا غالباً قدیم ترین زندہ شہر ہے جس کی تاریخیِ عظمت و قدامت زمانہِ قدیم کی معروف تہذیبیں بابل ، ٹیکسلا ، ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تباہ شدہ بستیوں سے کم نہیں،

اس تاریخی شہر کا آغاز آج بھی پردہ اسرار میں ہے۔ ہزاروں سال قبل جب آریا قوم بر صیغر میں داخل ہوئی تو ان کا مسکن "پرت سندھو" یعنی سات دریا میں راوی چناب ستلج جہلم بیاس ، سندھ اور کابل تھا جس کی مشہور بستیوں میں پاکپتن (اجود ھن) قبولہ او رموجودہ دیپالپور تھیں جن کے تاریخی حقائق کسی حد تک معلوم ہوسکے ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے برصغیر کے اہم ترین مقامات میں شمار ہوتا تھا

دیپال پور ستر سال تک صوبائی دارالخلافہ رہا

 

سلطان علائو الدین خلجی کے عہد میں غیاث الدین تغلق (غازی ملک ) کو دیپالپور کا گورنر مقرر کیا نیز دیپالپور کو صوبائی دارالخلافہ بنایا گیا۔

غیاث الدین تغلق کا تخت دہلی سنبھالنے کے بعد اپنے بیٹے  شہزادہ محمد تغلق کو دیپالپورکا گورنر مقرر کیا اور اس طرح تغلق خاندان نے دیپال پور دہلی پر 35 سال حکومت کی۔ برصغیرمیں اسلامی عہد کے اس ابتدائی حصہ کو سلطنت دیپال پور دہلی کہا جاتا تھا۔

 شہنشاہ اکبر کی حکومت کے پچیسیویں سال میںدفاعی حکمت عملی کے تحت صوبائی دارالحکومت دیپالپورسے لاہور منتقل کردیا گیااور دیپالپور کو ملتان کے شاہی صوبے کا ایک حصہ قرار دیا گیا۔جس کے بعد قلعہ دیپال پور کی تاریخی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔

قلعہ دیپال پور کا نام اور تاریخی دروازے

 

موجودہ قلعہ دیپالپور کے چار دروازے تھے مشرق جانب "دہلی گیٹ" مغرب " ملتانی گیٹ"  شمال  " لاہوری گیٹ "  اور جنوب " بیکا نیر گیٹ کے نام سے  منسوب تھے۔جن میں شمال اور جنوب کے گیٹ گر چکے ہیں جبکہ مشرقی اور مغربی گیٹ موجود ہیں جن کو بغور دیکھنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ اپنے دامن میں لمبی داستانیں سمیٹے کھڑے ہیں۔

دیپال پور کا سب سے پہلے نام " سری پوری " رکھا گیا جو دیپالپور کے پہلے راجہ ہما چند کھتری نے اپنے بیٹے سری چند کے نام پر رکھا بعدازاں راجہ سالہان یا مسہلوان جس نے سیالکوٹ کی بھی بنیاد رکھی نے اپنے بیٹے دیو پال کے نام کی مناسبت سے اس شہر کا نام دیو پال پور رکھا اور ازسر نو آباد کیا جو بعد میں بگڑ کر دیپالپور ہوگیا۔ 

قدیم زمانہ میں دیپال پورمیدان جنگ کے لیے مشہور تھا

 

دیپال پو رشہر صدیوں پہلے برصغیر کی اہم دفاعی چوکی کے طور پر تاریخ میں مشہور تھا۔ یورپ اور وسطِ ایشیا کے ہر حملہ آور کے سامنے راستے میں پڑنے والا یہ دیپال پور شہر سینہ سپر ہوا،

 برصغیرمیں قلعہ دیپال پو ر اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا جو اپنے اندر لاکھوں راز چھپائے ہزاروں برس کی تاریخ کا امین بھی ہے۔ دیپال پور کا محل و قوع

اس کے لیے آرام و مصائب کا باعث بنتا رہا۔ دہلی کی طرح دیپال پور بھی کئی مرتبہ عروج و زوال سے گزرا لیکن ذوقِ حیات نے ہر دفعہ اس کے کھنڈرات پر از سر نو تخلیق و تعمیر کا عمل دہرایا۔

 بادشاہ اکبر اور شہزادہ سلیم کے ساتھ آئے شاہی قافلے نے یہاں قیام کیا

 

١٥٧٨ء  میں جب مغل بادشاہ اکبر اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کے ساتھ دربار بابا فرید الدین گنج شکر  پاکپتن حاضری کے لیے اپنے لشکر ، امراء و زراء اور رانی کے ہمراہ آیا تو واپسی پر دیپالپور میں

گورنر دیپال پور خانِ خاناں عبدالرحیم کے ہاں باندیوں سمیت محلات میں مہمان ٹھرے جو اب نوگھرہ کے نام سے مشہور ہیں ۔

موجودہ فاطمہ جناح پارک جو اس دور میں ایک وسیع میدان تھا یہاں پر امراء اور حفاظتی دستون نے پڑائو ڈالا، جن کے لیے یہاں پر ایک پختہ کنواں جاری کیا گیا جو پڑائو والا کے نام سے منسوب ہوا ۔